منصف ہاشمی ۔۔۔ نثری نظم

نثری نظم۔۔۔!

چہرے بدلتے لوگوں میں۔۔۔!
جذبات کا قتلِ عام کرنے والوں میں۔۔۔!
مندر میں تڑپنے والوں کو دلاسہ دیتے ہوئے۔۔۔!
مسجد میں بکھرے لہو کو آنسوؤں سے دھوتے ہوئے۔۔۔!
گھپ اندھیرے میں !
سبز امامہ باندھے ہوئے۔۔۔سفیرِ بہار روتا ہے۔
شام کے آنگن میں سرخ سبز چوڑیاں ٹوٹی بکھری ہیں۔
قائمۃ الایمان کے زاویوں میں۔۔۔!
وہ پھر بھی ،
تفہیمِ جمال کے خطوط کی وادیوں میں۔۔۔تعبیرات خواب کے یوسف کا رنگ بھرتا ہے۔
زیوس ، اندر دیو کی مقدس کتابوں سے صدائے کن فکاں کی فکری آیتیں بولتا ہے۔
میں درگا ماں کی گود میں سر رکھے۔۔۔ایڑیاں رگڑ رہا ہوں۔
دجلہ ، فرات میں بہتی محبت سے۔۔۔ گنگا جمنا میں بہتی چاہت سے کوئی واقف نہیں۔
آسمانی دریچوں سے محبت چاندنی بن کر اترتی رہتی ہے۔
میرے اندر کے موسم سے کوئی گلے ملتا نہیں۔
یاد رکھو۔۔۔!
عنقریب نفرت کی زمیں پھٹ جائے گی۔
انا کے بت منہ کے بل گر کر ٹوٹ جائیں گے۔
حنوط زندگی کی رگوں میں سبز محبت کی روانی بحال ہوجائے گی۔

Related posts

Leave a Comment